Sir syed ahmad khan
وہ ایک جرأتمند اور انقلابی شخصیت تھے علم وادب سیاست اور مذہب سمیت کی شعبوں میں ان کی خدمات ناقابل فراموش ہیں
فیروز بخت احمد نئی دہلی: سرسید احمدخاں رحمتہ اللہ علیہ کے ساتھ سب سے بڑی ناانصافی یہ رہی کہ ہندی اور انگریزی توکیا بلکہ اُردو والوں کوبھی اس جامع کمالات شخصیت کی جدوجہد اور جہالت سے جنگ کاپوراعلم نہیں ہے۔البتہ اردو اخبارات ورسائل میں ہر سال 17 اکتوبر کوکچھ ہلکے پھلکے مضامین سرسیّد کی بھاری بھرکم شخصیت پرضرور دیکھنے کومل جاتے ہیں۔سچ تویہ ہے کہ جتنا علیگڑھ یونیورسٹی سے لوگ مستفیض ہوئے،اتنا ہی سرسیّد کو بھلاتے چلے گئے۔یہاں تک کہ خود علیگڑھ یونیورسٹی تک میں17اکتوبر کومعمولی سی تقاریب کرلی جاتی ہیں۔ اس بات سے کوئی انکار نہیں کرسکتا کہ سرسیّداحمد خاں کی وراثت کافیض سبھی ہندوستانیوں کوبلا تفریق مذہب وملت پہنچ رہا ہے۔ یہ حقیقت ہے کہ سرسیّد بیسوی صدی کی قدآور ہستی ہیں۔جس طرح سے یہ ادارہ قائم کرنے کے لئے انہوں نے سخت قسم کی جنگ کی،اس کاحوالہ تاریخ میں نہیں ملتا تعلیمی میدان میں بہت سی ایسی ہستیاں مل جائیں گی جنہوں نے بے تحاشاجد وجہد کی ہوگی مگر سیّد احمدخاں کی مثال ملنانا ممکن ہے۔ سرسیّد انگریزی تعلیم کی مدحت سرائی میں اُس وقت مصروف تھے جب مسلمان انگریزوں کے خلاف ایک پلیٹ فارم پر آگئے تھے۔یہ وہ وقت تھا کہ جب مسلم علماء اور مبصرین دین نے بھی انگریزوں کے خلاف فتوٰے صادر کردیے تھے۔ مسلمانوں کی بہت بڑی تعدادانگریزوں کی مخالفت پرکمر بستہ تھی۔ ان علماء کے اس رحجان کی وجہ سے عوام میں برطانوی حکومت کے تئیں بیزاری اور بغاوت کامکمل جذبہ اُبھر چکاتھا۔مگر اس کے باوجود سرسیّدنے مسلمانوں کی تعلیم انگریزی میڈیم کے ذریعہ عام کرنے کی بات پر زور دیا۔سرسیّدکاخیال تھا کہ انگریزوں کوانہیں کے ہتھیار سے مارا جائے تو بہترہوگا۔لہٰذا جب انہوں نے انگریزوں سے تعلقات مستحکم کرلئے اور انگلستان کاڈیڑھ سال تک دورہ کیااور کچھ اُردو کے اخباروں نے یہ افواہ پھیلادی کہ سرسیّد عیسائی ہوگئے ہیں ۔اس بات سے سرسید کوسخت صدمہ ہوا اور انہوں نے کہا یہ کس قسم کاصحافی ہے جس نے مسلمان ہوتے ہوئے اس قسم کی خبرمیرے خلاف چھاپ دی!“ سرسیّد کے بڑھتے ہوئے اثرورسوخ کے باعث نہیں ملحد،دہریہ زندیق اور نہ خانے کیاکیا القاب دئیے گئے۔ سرسیّدکومعلوم تھا کہ انگریزوں سے دولگا تارشکستوں کے بعدمسلم طبقہ ہرلحاظ سے ٹوٹ چکاتھا۔پہلی جنگ مسلمان بالاکوٹ میں ہار چکے تھے اور دوسری چوٹ انہیں1857ء کی شکست کے بعد لگی تھی۔انگریزوں نے چونکہ مسلمانوں سے اقتدار چھینا تھا۔وہ اُن کوحقیرہی نہیں سمجھتے تھے بلکہ دوسری قوموں کے مقابلے زیادہ ذلیل کرتے تھے۔یہ بات سرسید نے بخوبی سمجھ لی تھی اور پہلے خود کو ذہنی طور پر تیار کیا پھر قوم کو تیارکرنے میں لگ گئے۔ سرسید بہت اچھے مقرربھی تھے۔مگران کی شعلہ بیان تقریروں میں جوش وولولہ سیاست کے غبار کانہیں بلکہ تعلیمی اطوار کا ہوتا تھا۔ اپنی درسگاہ کے متعلق ایک تقریر میں انہوں نے کہا تھا‘اے عزیزواس مدرسہ کی بنیاد جس دن رکھی جائے گی وہ دن ہمیشہ مدرسہ کی سالگرہ کادن ہوگا“۔یہ بات انہوں نے اس بات کے جواب میں کہی تھی کہ ان کے یوم پیدائش کوکچھ طالب علم”یوم تعلیم“ کے طور پر منانا چاہ رہے تھے۔طالب علموں سے انہوں نے مزیدکہا‘ہرلڑکے کواس وقت وہی کام کرنا پڑے گا جواس وقت کے لئے مقدر ہے۔ایک اور تقریر میں سرسیّد نے کہا،آؤ ہمارے ساتھ علیگڑح چلو!ہمارے کالج کے ان پیارے بچوں کودیکھو جو بطور بورڈ کے وہاں رہتے ہیں۔باپ زیادہ ہم سے محبت کرتے ہیں،ہماری جھڑکی سے ان کو نصیحت حاصل ہوتی ہے مگر وہ اس کوایسی عزت سے قبول کرتے ہیں جیسے بیٹا اپنے باپ کی تاد یب وتنبیہ کو۔ سرسید کے نزدیک تعلیم بنیادی سرچشمہ کی حیثیت رکھتی تھی۔ان کاخیال تھا کہ بغیر اعلیٰ وجدید سائنسی تعلیم کے مسلمان کبھی بھی انگریزوں کوشکست نہیں دے سکتے تھے۔لہٰذا اپنے تعلیم انقلاب کے لئے سرسیّد نے دونوں جانب سے سطح ہموار کی اور جدید تعلیم حاصل کرنے کادرس دیا۔اس کے لئے انہوں نے1866کو‘علیگڑھ انسٹی ٹیوٹ گزٹ“شائع کیا،پھر انہوں نے ’سائنٹفک سوسائٹی کی داغ بیل ڈالی۔اس کے بعد”محمدنسول سروس فندایسوسی ایشن‘اور”محمد ایجوکیشنل کانفرس“ کی بنیادی پڑی جس کی میٹنگ پہلے تو سالانہ ہواکرتی تھی اور اب کبھی کبھار ہوجاتی ہے۔انگریزی جریدوں’اسپیکٹیڑ‘اور‘ٹیٹلر‘ کی طرح انہوں نے ’تہذیب الاخلاق‘شروع کیا۔یہ سب سرسیّد صرف اس وجہ سے کررہے تھے کہ وہ خود بھی اعلیٰ تعلیم یافتہ تھے۔مسلم قوم کی ترقی اور تعلیمی پسماندگی دور کرنے کے لئے سرسیّد نے باوجود زبردست مالی بحران کے اس بات خیال رکھا کہ معاشی اعتبار سے بھی قوم پس ماندہ نہ رہے۔سرسیّد کو سائنس سے بہت لگاؤ تھا اور وہ خود میڈیکل کورس کرنا چاہتے تھے مگر مالی ناآسودگی کی وجہ سے ان کاخواب شرمندہ تعبیر نہ ہوسکا۔ سرسید کی والدہ کپڑے سی کرکچھ خرچہ چلایا کرتی تھیں۔وہ نہیں چاہتے تھے کہ اُن کی قوم کے بچے کسمپرسی کے عالم میں زندگی گزاریں۔سرسید کے علیگڑھ سائٹیفک گزٹ“ کی حیثیت آل راؤنڈرکی سی ہوتی تھی۔وہ اس بات کے خلاف تھے کہ تعلیم کو صرف ڈگری یاملازمت حاصل کرنے تک ہی محدودرکھا جائے۔ 1884ء کوکلکتہ میں ایک جلسہ میں سرسید نے پرزوراپیل کی تھی کہ آنے والا زمانہ ترقی اور سائنس کازمانہ ہے جس کی کلیدی حیثیت ہوگی۔انہوں نے بنگال کے مختلف عالموں سے درخواست کی تھی کہ وہ مدرسوں میں عصری تعلیم کوبھی فروغ دیں تاکہ یہی عالم وفاضل مولوی ایک مکمل اور آسودہ معاشرے کی بنیاد ڈال سکیں۔دینی تعلیم کے ساتھ عصری تقاضوں کوبھی پورا کرنے کی انہوں نے درخواست کی۔اس پر اس جلسہ میں آئے مدرسین اور مدارس کے منتظمین برہم ہوگئے اور سرسید کوآگے بولنے نہیں دیا۔آخر میں ایک وقت ایسا بھی آیاکہ وہ اکیلے ہوگئے۔مگر اپنی تحریک کوانہوں نے ترک نہیں کیا۔ سرسیّدکاعقیدہ تھا کہ مذہب جامد نہیں ہے۔آج اگر وہ زندہ ہوتے تو اُن کانعرہ یہی ہوتا کہ مسلمانوں کوایک ہاتھ میں قرآن اور دوسرے میں کمپیوٹر لے کرچلنا ہے۔انہوں نے خاص زوردیا کہ اسلام ہی ایسا مذہب ہے جوبدلتے ہوئے زمانے کے نئے تقاضوں سے ہم آہنگ ہوسکتا ہے اور ترقی کے تمام جدید راستوں کوکھولتا ہے۔وہ بچے مسلمان تھے۔مسلمانوں کو صاف الفاظ میں انہوں نے یہ باور کرادیا تھا کہ قومیں وہی زندہ رہتی ہیں جو حال کوبہتر سے بہترطریقہ سے استعمال کرکے روشن مستقبل کی اُمید کریں۔مگر افسوس آج کے مسلمانوں نے اُن کے قول کوبُھلادیا ہے
No comments:
Post a Comment